08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -بدلہ قسط4
بدلہ
از مشتاق احمد
قسط نمبر4
وہ سب دوست ان لوگوں کو دیکھ رہے تھے جو شور سن کر جمع ہو گئے تھے۔
انکو پتہ لگ گیا تھا کہ انکو سب معلوم ہو گیا ہے۔ بھلا اب وہ کیسے اپنے شکار کو بھاگتے دیتے۔
یہ انکا شکار ہی تو تھے۔ ان سب کی خوراک۔
وہ ہنس رہے تھے۔
تم لوگ کون ہو۔ نجم بولا۔
ہم ہاہاہا ہم آدم خور ہیں۔
تم جیسوں کو کھاتے ہیں ۔انسانی گوشت بہت مزیدار ہوتا ہے۔
اب تم لوگوں کو کھایں گے۔
پہلے ہمیں ڈھونڈ کر پھنسا کر شکار لانا پڑتا تھا اب تو خود شکار چل کر آیا ہے۔
ہمارے تو مزے لگ گئے ہیں۔
بہت دن آرام اور سکون سے گزریں گے ہاہاہا۔
وہ سب گھیرا بنا کر کھڑے ھوے تھے کہ بھاگ نہ جایں۔
وہ سب دوست خوف سے کھڑے تھے۔ نجم نے یقدم بھاگنا شروع کر دیا۔
وہ ماہر کھلاڑی تھے کچی زمین کے رہنے والے تھے جا کے پکڑ لیا۔
اب تو سب سے پہلا تیرا نمبر لگے گا نجم رو رہا تھا۔ ان سب نے ان کو پکڑا اور جا کر ایک کمرے میں بند کر دیا۔
سب ڈر کے بیٹھے ھوے تھے۔
یہ سب اس نجم کی وجہ سے ہوا ہے یہی ہمیں یہاں لایا تھا۔ حبیب روتے ہوے بولا۔
اب تو یہاں سے نکلنا بہت مشکل ہے۔
کیا کریں وہ سب سوچ رہے تھے پر کوئی حل نہیں مل رہا تھا۔
پر کچھ کرنا ہوگا ہمیں ان سے بچنے کے لئے ندیم بولا۔
سب پریشان تھے۔
عثمان نے بات نہیں مانی تھی ماں باپ کی وہ پچھتا رہا تھا۔
اکٹھا حملہ کرتے ہیں مرنا تو ہے آر یا پار کچھ تو ہوگا۔ حبیب بولا۔
ہاں یار بری موت سے اچھا ہے لڑ کر مریں اور ان کو بھی مار کر۔
تو پھر ٹھیک۔ اب انکو ان کے آنے کا انتظار تھا۔
شام ہوئی تو ایک بندہ آیا کھانا لے کر نیچے سے جگہ بنی ہوئی تھی اس میں سے آگے کر دیا اسنے۔
یہ کھا لو ورنہ مر جاؤ گے نہیں کھاؤ گے تو۔
وہ چلا گیا۔
یہ سب کھانا دیکھ رہے تھے پتہ نہیں کس بیچارے کو مار کر خوراک بنائی ہوگی۔
انکو تو کھانا دیکھ کر الٹی آ رہی تھی۔
ہم کیسے کسی انسان کو کھا سکتے ہیں۔
اس وقت تو پتہ نہیں تھا۔
اب کیسے۔ وو بھوکے رہے پوری رات صبح ہوئی تو ایک بندہ اسی طرح چاۓ دے گیا۔
وہ سب نے پی۔ سب پریشان تھے۔
سب کو اپنے گھر اور پرانی باتیں یاد آ رہی تھیں۔
آگے کیا ہو جائے کوئی نہیں جانتا تھا۔
پر وہ سب اتفاق میں بیٹھے تھے۔
کچھ کرنے کا ارادہ کر کے جب وقت اے گا اس وقت۔
دن کو پھر ایک بندہ کھانا لے آیا۔
ان کے سامنے رکھ کر چلا گیا۔
وہ سب دیکھ رہے تھے۔
پر کھا کوئی نہیں رہا تھا نہ انسے کھایا جانا تھا۔
بھوک سے بے حال بھی تھے۔
سب سوچ رہے تھے کیا کریں۔
شام ہوتی جا رہی تھی اور انکو کچھ ہونے کا ڈر بھی تھا۔
کس کا نمبر آ جائے کوئی نہیں جانتا تھا۔
پر انہوں نے لڑنا تھا ہر حال میں۔
شام ہوئی تو بہت سے بندے آ گئے۔
ایک بندہ زور سے بولا۔
ایک کی باری ہے کون جائے گا۔
کھانا ختم ہو گیا ہے۔
سب کے جسم ٹھنڈے ہو گئے۔
اب کیا کریں اتنے بندوں سے کیسے لڑائی کریں ان کے پاس چاقو چھری سب کچھ تھا اور یہ سب خالی ہاتھ تھے۔
خود ایک بندہ آ جائے۔
کھانا کا وقت ہو رہا ہے پکانا بھی ہے۔
چلو جلدی کرو۔
یہ سب دل سے رو رہے تھے۔
شیری سائیڈ پر بیٹھا رو رہا تھا۔
کانپ سب رہے تھے۔
انہوں نے جھپٹ کر شیری کو پکڑ لیا۔
وہ رو رہا تھا چیخ رہا تھا ۔
منت کر رہا تھا۔
پر یہ کچھ نہ کر سکے۔
یہ سب رو رہے تھے آج انکا ایک دوست جدا ہو گیا تھا یہ بچا بھی نہ سکے اسکو۔
سب کچھ اچانک ہوا انکو سمجھ بھی نہ لگ سکی۔
سب رو رہے تھے خدا سے دعا مانگ رہے تھے۔
ان کے عمل کا نتیجہ تھا۔
یہ معصوم پرندوں اور جانوروں کا شکار کرتے تھے اب خود ہونے جا رہے تھے۔
سب کو عقل آ چکی تھی پر اس وقت جب یہ سب بے بس تھے۔